تقریب میں چند رشتے داروں ، محلے داروں کی شرکت، ایک لڑکی کے سہانے سپنے ادھورے رہ گئے.
لاہور( نومبر 2019ء) نئی نویلی دلہن کے ارمان اس وقت دھرے رہ گئے جب وہ اپنی شادی کیلئے نیا جوڑا خریدنے بھی بازار نہ جاسکیں ، دلہن پر مزید مصبیت اس وقت آن پڑی جب اسے پیدل ہی سسرال جانا پڑا، شادی کا جوڑا ادھار مانگ کر پہنا، شادی کی چھوٹی سی تقریب ہوئی جس میں چند رشتہ داروں اور ہمسایوں نے شرکت کی تقریب کے بعد انہیں پیدل چل کر نئے گھر(سسرال) جانا پڑاجانا پڑا کیونکہ سڑکیں بند تھیں، تفصیلات کے مطابق مقبوضہ جموں کشمیر میں کرفیوکی وجہ سے نہتے کشمیریوں کی زندگی اجیرن بن چکی ہے ،بھارتی حکومت ککے جابرانہ اقدامات کی وجہ سے کشمیری 91روز سے اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں ان کے حالات ہیں جو بدلنے کا نام ہی نہیں لے رہے ، ایسوسی اٹیڈ پریس اے پی کے مطابق کرفیو کے دوران ہی کلثومہ رمیز کی شادی ہوئی کلثومہ نے بھی اپنے دل میں ارمان سوچ رکھے تھے جیسے دوسری لڑکیوں کے ہوتے ہیں ، نہ جانے اس کے ارمانوں کو کس کی نظر لگ گئی تھی ، کشمیر میں مسلسل کرفیو نافذ ہے جو ختم ہونے کو ہی نہیں آرہا ، اسی دوران کلثومہ رمیز کی شادی ہوتی ہے ، شادی پر پہننے کیلئے وہ اپنے لئے نیا جوڑا خریدنے بازار نہیں جاسکتی ، کیونکہ گلیوں چراہوں میں بھارتی فوجی تعینات ہیں جنہوں نے ان کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے ، کلثومہ اپنے لئے شادی کا جوڑا مانگ کر پہنتی ہے ، شادی کی چھوٹی سے تقریب منعقد ہوتی ہے ، جس میں اس کا اوس پڑوس اور چند عزیز شامل ہوتے ہیں ، شادی کی تقریب کے بعد ایک نئی مصیبت اس وقت کھڑی ہوجاتی ہے جب دلہامیاں اسے گاڑی میں بٹھا کر نہیں لے جاسکتے کیوں کہ وادی میں تو کرفیو نافذ ہے ، اس لئے کلثومہ کو پیدل چل کر ہی سسرال جانا پڑتا ہے شادی کے لمحات تو ہر جوڑ ے کیلئے حسین اور خوشگوار ہوتے ہیں جسے وہ ہر لحاظ سے یادگار بنانا چاہتے ہیں مگر یہ ایک ایسی شادی ہے جسے کلثومہ رمیز پوری زندگی بھلا نہیں پائے گی ، ماہرین نفسیات کے مطابق مہذب معاشروں میں شادی کے موقع پر حکومت اپنے شہریوں کا خاص خیال رکھتی ہیں تاکہ وہ اپنےنئے سفر کو پرسکون انداز سے شروع کر سکیں مگر بدقسمتی سے برصغیر ابھی ترقی پذیر ہے یہاں پر ایک گھر کی الگ کہانی بنی ہوئی ہے ، واضح رہے کہ وادی میں کرفیو میں نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے اور 91روز سے کشمیری گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔
0 Comments